Friday 3 October 2014

سفر لاحاصل

(افسانہ)

 



                

                 اُ س نے دھیرے سے سرگوشی کی ، میں اس کی ساری بات نہ سن سکا، تاہم جو کچھ سمجھا،اُس کے مطابق جواب دے دیا۔ وہ دھیمے سُروں میں پھر گنگنایا،اب کی بارمجھے سب سمجھ آیا، میں نے اُس کو بتایا "ہاں بالکل اکیلے ہی ادھر آیا ہوں‘‘۔ اُس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا: ’’زمین سے اس قدر پرے، اس کونے میں، اِس ویران بستی میں، اِس قدر بے آباد ، پْرخطر اور طویل راہوں سے گزر کر آئے ہو، وجہ جان سکتا ہوں ؟‘‘ میرے اندر خوشی کی ایک عجیب سی لہردوڑ گئی،یوں لگا گویا سفر کی ساری کلفت یک لخت ختم ہوگئی ، میں نے قدرے بلند اور رعب دار آواز میں جواب دیا ۔ " شوق کا کوئی مول نہیں‘‘ ۔ میری بلند آواز میں جوش اور لگن کا ملا جلا رنگ تھا۔ میں نے ایک لمبی سانس لی اور کیمرے کی آنکھ میں ایک اور حسین منظر محفوظ کر لیا۔

                   جاتی شام کے دھندلکے میں ، جب آدھا سورج جھیل کے نیلے پانی میں ڈوب رہا تھا اور باقی آدھا دور اُفق کی سرخ لکیر کے اُس پار اور کسی اور دنیا میں طلوع ہو رہا تھا، میں تیز ٹھنڈی ہوا اور صاف فضا میں لمبے لمبے سانس لے رہا تھا اور وہ میرے سامنے کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا " تم جیسے لوگ یہ حقیقت جان لیتے ہیں کہ ہم سب مسافر ہیں ، ہر کو ئی اپنا اپنا سفرنامہ لکھ رہا ہے ، یہ اور بات کہ کچھ لو گ اپنی کتاب میں وہی کچھ لکھتے ہیں جو تقدیر نے پہلے سے ہی لوحِ محفو ظ میں لکھ ر کھا ہے ۔اور کچھ سر پھرے تقدیر کی تحریر خود لکھنے کے لیے قریہ قریہ پھرتے ہیں۔
               
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا، میں کچھ دیر تک اُس کی اگلی بات کا انتظا ر اور پچھلی بات پرغور کرتا رہا    میں نے دل میں سوچا، کس قدر خوش فہم ہے یہ بوڑھا۔۔۔ پھر قدرے تیز لہجے میں پوچھا گویا اسے بتا رہا ہوں ،تو آپ کے خیال میں مجھے اِن پہاڑوں، ندیوں،اور جھیلوں میں کون سی تقدیر ملے گی؟ اب کسی دیوار تلے خزانہ دفن نہیں کیا جاتا ، کسی ندی میں موتی نہیں بہتے اورکوئی پہاڑ سونے کا نہیں ہوتا۔ میں اگر بچہ ہوتا تو شاید اِن باتوں پر ایمان لاتا مگر میرا تجربہ کچھ اور کہتا ہے اور یہ وہ آڑہے جو آپ کی باتوں کو محض کتابی حیثیت دینے پر مجبور ہے۔                
                    میں نے ایک طرف منہ موڑا ، سائبیریا سے آنے والے پرندے ایک لمبے سفر کے بعد جھیل کنارے اُترنے ہی والے تھے کہ میں نے منظر کی تصویر لے لی۔وہ بوڑھا دوبارہ گویا ہوا ، ’’اچھی تقدیر صرف دولت مندی ہی کا نام نہیں۔" میں نے ۱س کی بات کو جھٹلایا، پھر وہ اُداسی سے گویا ہوا،’’شاید تم 
  اُس دنیا کے باسی ہو جہاں کا خدا ہمارے خدا سے مختلف ہے۔‘‘ میں اُس کے مافی الضمیر کو سمجھ گیا ، میرے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ کر اُس نے اندازہ لگایاکہ بات میرے دل کو لگی ہے، اُس نے ایک اور چوٹ لگا ئی: ’’مادہ پرست خواہ ابھی سفر کے آغاز میں ہی کیوں نہ ہو ،وہ جان جاتا ہے کہ وہ انجانے میں کس چیز کو خدا بنا چکا ہے‘‘مجھ میں تھوڑی سی شرم عود آئی، ایک لمحے کو میں گھبرایا، فوراً ہی دماغ نے دِل کو سمجھایا ، ’’ارے بھائی ، ایسی باتیں کتابوں میں ہی سجی اچھی لگتی ہیں ، یہ دنیا ہے، یہاں کا قانون اور طرح سے چلتاہے۔‘‘ مگر جو اُلجھن تھی سو و ہ رہی۔

                 میں اِسی کشمکش میں تھا کہ اُس سے تقدیر کی تحریر کا مفہوم سمجھوں ،جس سے مراد دولت بھی نہیں یا رہنے دوں کہ کہیں وہ دوبارہ میرے طرزِزندگی پر طنز نہ کر دے۔ ساتھ ہی ساتھ میں اُن پردیسی پرندوں کو دیکھنے میں اِتنا مگن تھا کہ معلوم نہ ہوا کہ وہ بوڑھا نہ جانے کب غائب ہو گیا ۔ اندھیرا زیادہ ہو گیا تھا ۔ جب تک چاند پوری طرح نیلے پانی میں نہ اُترا ،میں جھیل کنارے ایک چٹان پر بیٹھا رہا ، پھر اِس منظر کی ایک تصویر لی اورواپس مُڑ گیا۔
                  میں کئی برس تک ملکوں ملکوں پھرتا رہا۔ دولت اور شہرت ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔کیمرہ میرے رزق کا سبب بنا رہا اور میں مظاہرِ فطرت کو محفوظ کرنے میں لگا رہا ۔دُنیا اِن مناظر کو دیکھ کردادوتحسین کے نعرے بلند کرتی رہی اور انہی نعروں کے شور میں ،میں اِس بات سے بے خبر رہا کہ یہ کتنے ہی نظارے میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکا نہ اپنے دِل میں اُتار سکا۔میری کتابِ زندگی کے اوراق سادہ ہی رہے اور سفرنامہ تحیر سے خالی ہی رہا ۔ میں اپنے خُدا کی پوجا میں اِتنا مصروف رہا کہ اُس بوڑھے کے خدا کو کسی منظر سے نہ نکال سکا۔ گو وہ میرے ساتھ ساتھ رہا اور ہر مقام پر اپنا اِظہار کرتا رہا۔
                                               تاسف کا احساس لیے جب میں خیال نگری سے ہو کر اپنا سفرنامہ پڑھتا ہوں تومعلوم ہوتا ہے کہ من کی دولت سے تہی دست زندگی میری تقدیر تھی اور خضرکا سا رہنما ملنے کے باوجود میں اپنی تقدیر نہ بدل سکا


No comments:

Post a Comment