Friday 26 December 2014

سیرِ کہسار


میں چپکے سے نکل کر سب سے آگے بڑھ گیا ۔ پہاڑ کے گرد گھومتا، تیز تیز چلتا اور بار بار رک کر ارد گرد نگاہیں دوڑاتا رہا ۔ میں شدید حیرت اور تعجب میں مبتلا تھا کہ میری آنکھ نے یہ حسین منظر بھی دیکھنا تھا۔ یہ نیلم کا حسنِ بے نیاز تھا جو پچھلے ایک ہفتے سے میرے ہمراہ تھا ۔ نیلا نیلم لہرا لہرا کر بل کھاتاہر موڑ پر ایک نیا منظر پیش کرتا تھا ۔اس کی سب سے بڑی خوبصورتی شاید یہ تھی کہ یہ کبھی بھی مستقل نہ رہتا بلکہ ہر آن اس کے اندر انقلاب اور باہرنیا نظارہ جنم لیتا۔ اس کا شور میری سماعت کا مستقل حصہ بن چکا تھا اور راہ میں آتے ہر بڑے پتھر کے ساتھ اس کا جھگڑا دیکھنا میرا معمول بن گیا تھا۔ اگر ان سب کو الگ الگ کر کے دیکھتا تواس میں کوئی خوبصورتی نہیں تھی، پانی، پتھر اور پہاڑ سب ویسے ہی تھے جو میں بچپن سے ہر سیرِکہسارودریا میں دیکھ کے آتا تھا مگر ان سب کی یکجائی نے ان کی رعنائی کو بہت حد تک بڑھا دیا تھا ۔ سو اگر میں رُک کر دیکھتا تو چلنے کا جی نہ کرتا اور دل چاہتا کہ اسی خواب کے سے منظر سے نگاہیں ہٹا کر راہ کی دشواریوں کو دیکھنا کفرانِ نعمت ہو گا مگر یہ بھی دِل للچاتا کہ دیکھوں اگلے موڑ پر جانے کیا نئی چیز میرا انتظار کر رہی ہے اور میں اُدھر پہنچ کر کبھی بھی مایوس نہ ہواہاتھ میں لاٹھی ، کاندھے پرسفری بیگ اور کیمپ لٹکائے ، اگست کے مہینے میں دسمبر کے ملبوسات اوڑھے ، میں دومیل کی جانب رواں دواں تھا۔پانچ اور بھی تھے جو مجھ سے کافی پیچھے کھڑے اگلے سفر کی ہمت باندھ رہے تھے اور میں اس مرحلے سے کب کا گزر چکا تھا۔ اگلے موڑ پر پہنچ کر میں آگے نہ بڑھ سکا اور تب تک اُٹھ کر چل نہ سکا جب میرا آخری ساتھی بھی مجھ سے آگے نہ نکل گیا۔ منظر ہی کچھ ایسا تھا۔ پہاڑوں کے بیچوں بیچ میرے سامنے ایک کھلا میدان تھا، جو ایک بڑے سے کٹورے کی مانند خوش رنگ پھولوں کی سے بھرا ہوا تھا۔ بادل ان پھولوں کی بلائیں لینے اپنا تمام مقام و مرتبہ بھولے نیچے آیا ہوا تھا۔ شور مچاتے چشمے ان پھولوں کے درمیان اپنے آپ کو معطر کرتے ، اپنی جگہ بناتے، ہنستے مسکراتے آگے بڑھ رہے تھے۔ میں بے اختیار چلا اُٹھا: ’’یارب! اس منظر کو دیکھنے کے بعد کون کوتاہ نظر ہوگا جو تیرے ہونے کا انکار کرے گا‘‘ ۔شاید خدا بھی میری بات سن کر مسکرا دیا ہوگا۔ آگے جا کر مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو اس کی قدرت کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا ابھی شروع ہی تھا جو اس نے نیلم کو ودیعت کیا تھا۔’’السیروفی الارض‘‘ کی تفسیر میری سمجھ میں آگئی تھی۔


وادی خانہ خراب میں آکر ہماری کھلی چھت کی لوکل جیپ خراب ہو گئی تھی جس پر انسان ، بوریاں اور جانور ایک دوسرے کے اوپر یوں لدے ہوئے تھے گویا بستی والے اپنا تمام مال و متا ع سمیٹے کسی دوسرے جہاں میں منتقل ہونے کو ہیں ۔ ہمارا سامان بہت بے رحمی سے ہمارے پاؤں تلے کچلا گیا تھا اور ابلے ہوئے انڈے کب کے میرے نیچے آکر ٹوٹ گئے تھے ۔ یہ کیل سے دومیل جانے والی لوکل جیپ تھی جو پتھروں کے بنے ہوئے ناہموار راستے پر اپنی ہر سانس گہری چیخوں کے ساتھ لے کر رواں دواں تھی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ ہرتین گھنٹے کے سفر کے بعدنئے سرے سے اس کی مرمت کرواناپڑتی ہے۔جیپ میں مقامیوں کے علاوہ شوق کے آٹھ مسافر بھی لدے ہوئے تھے جن میں سے دو سفرمیں ہی ہمارے دوست بنے تھے۔ موسیقی کے یہ دو طالب علم بال بڑھائے ، حلیے بگاڑے اور ہفتوں سے بغیر نہائے موٹر سائیکل پر نیلم گھومنے نکلے تھے اور اس راہِ ناہموار پر انھیں بھی لوکل کا سہارا لینا پڑ گیا تھا۔ وہ جیپ میں ہم سب سے اوپر کی جگہ پر بیٹھے تھے ، چنانچہ ہر نیا منظر ان کی نگاہوں کے بعد ہماری دسترس میں آتا۔ وہ اسے دیکھ کر ایسی حسرت سے ایسی ’’ ہائے‘‘ کرتے کہ ہمیں اُٹھ کر یہ حسنِ بے پرواہ دیکھنا پڑتا اور ہر نیا آنے والا منظر پچھلے والے کو ٹھینگا دکھا رہا ہوتا تھا ۔ پہا ڑ ، آسمان اور دریا ایک دوسرے میں یوں گھلے ملے تھے کہ گویا فطرت نے ان کا دائمی وصل لکھ دیا تھا ۔ جیپ کا ہر ایک جھٹکا ہمارے کلیجے حلق میں لا کھڑا کرتا اور ہم دل تھا م کر پھر نیچے بیٹھ جاتے۔
 وہاں نہ جانے کتنی بار میں نے اپنے آپ کو ساتھیوں سمیت دریا میں غرق ہوتے دیکھا مگر یہ موت بھی خوشگوار تھی ۔ کم از کم مرنے کے لیے ایک شاندار جگہ تو تھی ، ورنہ دوسری صورت میں یہی ہونا تھا کہ لاہور کی مٹی پھکتے پھکتے اپنی عمر تمام ہو جاتی اور موت بھی اسی شہرِ بے ترتیب میں آتی۔ میں اسی سوچ میں بھی مستغرق تھا کہ ابھی اٹھ کر ساتھیوں کو کہہ دوں، تم جاؤ، میں پیدل آرہا ہوں تا کہ کوئی بھی منظر میں دیکھے بنا نہ رہ جاؤں مگر 35 پہاڑی کلومیٹر کا سوچ کر حوصلہ نہ پڑتا ،تاہم ہمسفروں کی اگلی ’’ ہائے‘‘ پھر سے یہی سوچنے پر مجبور کر دیتی۔ شاید میری خواہش میں اتنی شدت تھی کہ ایک بے نام و نشان وادی میں ایک بڑے پتھر نے ہماری جیپ کا کام تمام کر دیا ۔ اب ہمیں اپنا بوجھ خود اُٹھانا تھا اور اگلا گاؤں دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ سو ہم نے اس وادی کو وادی خانہ خراب کا نام دیا اور وہاں سے عازمِ سفر ہوئے۔


شمالی علاقہ جات اور کشمیر جانے والے لوگ اگر تمام مقامات کے حسن کو آپس میں مقابل کریں تو بلا شبہ نیلم ہمیشہ سرِ فہرست ہوتا ہے۔ دریائے نیلم کے کنارے کنارے لمبائی میں چلتی یہ وادی ایسی خوبصورتی کا مظاہرہ کرتی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ دنیا تیاگ کر کے اسی کے جنگلوں میں زندگی بِتا دی جائے۔ اس کے دوسری جانب مقبوضہ کشمیر ہے جسے مقامی بہت سہولت کے ساتھ "بھارت" کہتے ہیں ، اور دریائے نیلم آزاد اور مقبوضہ علاقوں کے درمیان قدرتی حد بندی کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم نے دریا کی دوسری جانب بے شمار چندروتیوں اور رکیش کھناؤں کو اپنے حصے کے نیلم کی سیاحت کرتے دیکھا۔نیلم کا جنگلی حسن ، حسنِ بے پرواہ ہے۔ یہ وہ گوہر ہے، جس کو اپنی بھی خبر نہیں۔یہ خود نہیں جانتی کہ اس کی آغوش میں اتنے سیاح کیوں آتے ہیں۔ اس میں وادیءِ کاغان کی طرح پہاڑوں کے علاوہ صرف درخت ہی نہیں ہیں بلکہ یہ تو کسی سلیقہ شعار سگھڑ گھریلو خاتون کی مانند ہر پتھر اور ہر چشمے پر ایسی خوش رنگ کشیدہ کاری کیے ہوئے ہے کہ نگاہیں ہٹنے پر نہیں آتیں اور دل بھرنے پر نہیں آتا۔گو ہریالی سبز رنگ میں ہی ہوتی ہے مگر یہاں سبز کے اندر کئی اور رنگ تھے ۔ گہرے اور ہلکے سبز کے درمیان ہزاروں سبز ایسے تھے جو ایک دوسرے سے مکمل الگ، اپنا اظہار کررہے تھے۔ پھر پانی صرف نیلا ہی نہیں تھا، نیلے کے کئی روپ تھے جو میں نے ایک ساتھ دیکھ کر خدا کی اس صناعی کی داد دی۔میں نے با ر ہا پورے منظر کو آنکھوں میں چھپا کر محفوظ کرنا چاہا تا کہ جب جی چاہے، خیال کی کھڑکی وا کروں اور چشمِ تصور سے لاہور کی بے ہنگم ٹریفک میں پھنسا پھنسا ہی قندِ مکرر کا مزہ لے لوں کہ مختار مسعود کے مطابق خیال پر تو کبھی کوئی پابندی نہیں ، جب جی چاہا ، پھر سے منظر سجا لیا۔

 

پانی کا شورگو موسیقی کے کسی پیمانے پہ پورا نہ اترتا تھا ، مگر اس کی مترنم سی آواز سماعتوں کو ہمیشہ ایسی بھلی محسوس ہوتی کہ سب کچھ چھوڑ کر اسی کو سننے کا دل کرتا۔ نیلم کا پانی شفاف تھا،مقدس تھا، اسے برف سے پگھلے ابھی کچھ گھنٹے نہیں ہوئے تھے ۔ یہی پانی ہمارا وضو تھا، یہی غسل اور یہی پیاس بجھانے کے کام آتا۔عہدِ طفولیت کی مانند اس پر کوئی قد غن نہ تھا،اس گناہ بالکل بھی نہ تھے، اس نے کہیں سیلاب بن کر کہرام نہیں مچایا تھا، سو معصومیت اپنے جوبن پہ تھی۔یہ پتھروں سے جھگڑا کرتا اسکول کے بچوں کی طرح معلوم ہوتا تھا جو منٹوں میں مان بھی جاتے تھے۔ میں نے چشمِ خیال سے اسے جہلم میں ملتے دیکھا ، اور پھر جہلم کو سندھ میں ۔ وہ گدلا آلودہ پانی، کبھی یہ بھی رہا ہوگا، میری سوچ اس مقام پہ آکر رُک گئی اور میں نے اپنی توجہ موجود پر لگائے رکھنے کے لیے دور سر سبز پہاڑوں پر نگاہ دوڑائی ۔ یہ ساری وادی ہی طفل کی طرح معصوم تھی۔ اپنا حق جتانے کے لیے پیار بھری مشکلات اور تھکاوٹ ضرور دیتی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اپنی آغوش میں لے کر ہر جگہ نت نئے لبادے اوڑھ کر ہمارے شعور اور یادوں کی کتاب میں نئے باب رقم کرتی تھی۔

ہر اگلے موڑ پر ایک چھوٹی سی ندی آجاتی ، جو تازہ برف کو پگھلا کر پانی کو ایک لمبے سفر پر روانہ کرنے کے لیے دریا تک رخصت کرنے آتی۔ اس کی جدائی کا منظر غمگین بالکل بھی نہ تھا، یہ تو ولولہ بھر کے پوری قوت کے ساتھ اسے یوں دریا کے سپرد کر تی کہ پانی اپنی اگلی منزلیں طے کرنے کو بے تاب سا ہو جاتا ۔ پھریہ جُز دریا میں داخل ہو کر کُل کا حصہ بن جاتا، اسی کی خصوصیات اپنا لیتا، سامنے کا پتھر بھی ڈھیٹ بن کر یونہی اس کے آگے کھڑا رہتا، اپنی انا کی جنگ میں اپنا آپ گنواتا رہتا۔ ہر آنے والا ریلا اس کے کونوں کو اور گول کر دیتا ۔ تھوڑی سی ریت اس کے اوپر سے جھڑتی اور دریا کے ساتھ بہنے لگتی۔ پانی اس کا نقصان ہوتا دیکھتا تو تھوڑی سی مصالحت پسندی پہ اتر آتا اور پتھر کے گرد گول گول گھومتا لمبا راستہ لے کر آگے بڑھ جاتا۔یہ منظر میں نے بار بار دیکھا اور اس میں ایسا لطف تھا کہ جب ساتھی خوش گپیوں میں مگن ہوتے، میں گھنٹوں دریا کنارے بیٹھا یہی سب کچھ دیکھتا رہتا۔

ایک دن وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے الجھ بیٹھا، اپنا احتساب کیا تو معلوم ہوا کہ میں ہمیشہ پانی ہی کی طرفداری کرتا ہوں ، کبھی پتھر بن کر تو دیکھوں اس میں کیسی انا ہے۔ فلسفے کے اس دشت میں اُترا توبہت کچھ لے کر لوٹا۔ دوسری جانب دنیا ہی الگ تھی۔ میں نے سوچا، سچے اور کھرے انسان بھی تو اسی پتھر کی مانند ہوتے ہیں۔ جس طرح بڑے بڑے پتھر پانی کے آگے سینہ سپر کھڑے اپنا آپ گنوا کر بھی خوش ہیں ، اسی طرح کھرے لوگ بھی جھوٹ اور فریب کی آندھیوں کے آگے یونہی ڈٹ جایا کرتے ہیں۔ یہ اس جنگ میں اپنا ریزہ ریزہ گنواتے ایک دن اپنے وجود کا خاتمہ کر بیٹھتے ہیں مگر کبھی بھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ اس کے بر عکس وہ پتھر بھی تو ہیں جو پانی کے ایک ہی ریلے میں اپنی انفرادیت اور اپنا موقف بھول کر ساتھ ہی بہتے چلے جاتے ہیں۔ گھس کر تو یہ بھی ایک دن ختم ہو ہی جائیں گے مگر ان کے اس عمل نے ابن الوقتی کی مہر ان کے کردار پرایسے ہی ثبت کر دی ہے، جیسے دھوکہ دینے کے بعد انسان بھروسے کے قابل نہیں رہتا۔ ہاں وہ بھی تو تھے جو اتنی طاقت تو نہ رکھتے تھے کہ موجوں کے آگے سینہ تان کر ٹھہر سکیں ، تاہم وہ دریا کے کنارے کھڑے ہو کر پانی کو بحرِ بے کراں ہونے سے بچاتے تھے۔ ضبط کی بندھن میں بندھے ان سالاروں کو دنیا ’’کناروں‘‘ کا نام دیتی تھی اور احسان مند تھی کہ اِن کی بدولت اُن کے گھر محفوظ ہیں۔سینہ سپری ، ضبط یا ابن الوقتی ، ان تین میں سے ایک کا انتخاب انسان کے سامنے ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور یہی اس کے کردار پر دائمی مہر لگا دیتا ہے۔نیلم کی جو تصویریں میں نے سیلولائیڈ کے فیتے پر نقش کیں، وہ تو شاید وقت کی دھول میں غائب ہو جائیں، مگر جو منظر میں نے جی بھر کر دیکھے،ان کو محسوس کیا، پھر آنکھیں بند کر کے خیال کے خالی کینوس پرمنظر کشی کی، اس کی ملکیت کوئی مجھ سے چھین نہ سکے گا کہ ان تصویروں میں رنگ میں نے خود بھرے ہیں ۔ یہی میری تنہائیاں آباد کرتی ہیں اور یہی میرا حاصلِ سفر ہیں


No comments:

Post a Comment