Friday 26 December 2014

سیرِ کہسار


میں چپکے سے نکل کر سب سے آگے بڑھ گیا ۔ پہاڑ کے گرد گھومتا، تیز تیز چلتا اور بار بار رک کر ارد گرد نگاہیں دوڑاتا رہا ۔ میں شدید حیرت اور تعجب میں مبتلا تھا کہ میری آنکھ نے یہ حسین منظر بھی دیکھنا تھا۔ یہ نیلم کا حسنِ بے نیاز تھا جو پچھلے ایک ہفتے سے میرے ہمراہ تھا ۔ نیلا نیلم لہرا لہرا کر بل کھاتاہر موڑ پر ایک نیا منظر پیش کرتا تھا ۔اس کی سب سے بڑی خوبصورتی شاید یہ تھی کہ یہ کبھی بھی مستقل نہ رہتا بلکہ ہر آن اس کے اندر انقلاب اور باہرنیا نظارہ جنم لیتا۔ اس کا شور میری سماعت کا مستقل حصہ بن چکا تھا اور راہ میں آتے ہر بڑے پتھر کے ساتھ اس کا جھگڑا دیکھنا میرا معمول بن گیا تھا۔ اگر ان سب کو الگ الگ کر کے دیکھتا تواس میں کوئی خوبصورتی نہیں تھی، پانی، پتھر اور پہاڑ سب ویسے ہی تھے جو میں بچپن سے ہر سیرِکہسارودریا میں دیکھ کے آتا تھا مگر ان سب کی یکجائی نے ان کی رعنائی کو بہت حد تک بڑھا دیا تھا ۔ سو اگر میں رُک کر دیکھتا تو چلنے کا جی نہ کرتا اور دل چاہتا کہ اسی خواب کے سے منظر سے نگاہیں ہٹا کر راہ کی دشواریوں کو دیکھنا کفرانِ نعمت ہو گا مگر یہ بھی دِل للچاتا کہ دیکھوں اگلے موڑ پر جانے کیا نئی چیز میرا انتظار کر رہی ہے اور میں اُدھر پہنچ کر کبھی بھی مایوس نہ ہواہاتھ میں لاٹھی ، کاندھے پرسفری بیگ اور کیمپ لٹکائے ، اگست کے مہینے میں دسمبر کے ملبوسات اوڑھے ، میں دومیل کی جانب رواں دواں تھا۔پانچ اور بھی تھے جو مجھ سے کافی پیچھے کھڑے اگلے سفر کی ہمت باندھ رہے تھے اور میں اس مرحلے سے کب کا گزر چکا تھا۔ اگلے موڑ پر پہنچ کر میں آگے نہ بڑھ سکا اور تب تک اُٹھ کر چل نہ سکا جب میرا آخری ساتھی بھی مجھ سے آگے نہ نکل گیا۔ منظر ہی کچھ ایسا تھا۔ پہاڑوں کے بیچوں بیچ میرے سامنے ایک کھلا میدان تھا، جو ایک بڑے سے کٹورے کی مانند خوش رنگ پھولوں کی سے بھرا ہوا تھا۔ بادل ان پھولوں کی بلائیں لینے اپنا تمام مقام و مرتبہ بھولے نیچے آیا ہوا تھا۔ شور مچاتے چشمے ان پھولوں کے درمیان اپنے آپ کو معطر کرتے ، اپنی جگہ بناتے، ہنستے مسکراتے آگے بڑھ رہے تھے۔ میں بے اختیار چلا اُٹھا: ’’یارب! اس منظر کو دیکھنے کے بعد کون کوتاہ نظر ہوگا جو تیرے ہونے کا انکار کرے گا‘‘ ۔شاید خدا بھی میری بات سن کر مسکرا دیا ہوگا۔ آگے جا کر مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو اس کی قدرت کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا ابھی شروع ہی تھا جو اس نے نیلم کو ودیعت کیا تھا۔’’السیروفی الارض‘‘ کی تفسیر میری سمجھ میں آگئی تھی۔


وادی خانہ خراب میں آکر ہماری کھلی چھت کی لوکل جیپ خراب ہو گئی تھی جس پر انسان ، بوریاں اور جانور ایک دوسرے کے اوپر یوں لدے ہوئے تھے گویا بستی والے اپنا تمام مال و متا ع سمیٹے کسی دوسرے جہاں میں منتقل ہونے کو ہیں ۔ ہمارا سامان بہت بے رحمی سے ہمارے پاؤں تلے کچلا گیا تھا اور ابلے ہوئے انڈے کب کے میرے نیچے آکر ٹوٹ گئے تھے ۔ یہ کیل سے دومیل جانے والی لوکل جیپ تھی جو پتھروں کے بنے ہوئے ناہموار راستے پر اپنی ہر سانس گہری چیخوں کے ساتھ لے کر رواں دواں تھی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ ہرتین گھنٹے کے سفر کے بعدنئے سرے سے اس کی مرمت کرواناپڑتی ہے۔جیپ میں مقامیوں کے علاوہ شوق کے آٹھ مسافر بھی لدے ہوئے تھے جن میں سے دو سفرمیں ہی ہمارے دوست بنے تھے۔ موسیقی کے یہ دو طالب علم بال بڑھائے ، حلیے بگاڑے اور ہفتوں سے بغیر نہائے موٹر سائیکل پر نیلم گھومنے نکلے تھے اور اس راہِ ناہموار پر انھیں بھی لوکل کا سہارا لینا پڑ گیا تھا۔ وہ جیپ میں ہم سب سے اوپر کی جگہ پر بیٹھے تھے ، چنانچہ ہر نیا منظر ان کی نگاہوں کے بعد ہماری دسترس میں آتا۔ وہ اسے دیکھ کر ایسی حسرت سے ایسی ’’ ہائے‘‘ کرتے کہ ہمیں اُٹھ کر یہ حسنِ بے پرواہ دیکھنا پڑتا اور ہر نیا آنے والا منظر پچھلے والے کو ٹھینگا دکھا رہا ہوتا تھا ۔ پہا ڑ ، آسمان اور دریا ایک دوسرے میں یوں گھلے ملے تھے کہ گویا فطرت نے ان کا دائمی وصل لکھ دیا تھا ۔ جیپ کا ہر ایک جھٹکا ہمارے کلیجے حلق میں لا کھڑا کرتا اور ہم دل تھا م کر پھر نیچے بیٹھ جاتے۔
 وہاں نہ جانے کتنی بار میں نے اپنے آپ کو ساتھیوں سمیت دریا میں غرق ہوتے دیکھا مگر یہ موت بھی خوشگوار تھی ۔ کم از کم مرنے کے لیے ایک شاندار جگہ تو تھی ، ورنہ دوسری صورت میں یہی ہونا تھا کہ لاہور کی مٹی پھکتے پھکتے اپنی عمر تمام ہو جاتی اور موت بھی اسی شہرِ بے ترتیب میں آتی۔ میں اسی سوچ میں بھی مستغرق تھا کہ ابھی اٹھ کر ساتھیوں کو کہہ دوں، تم جاؤ، میں پیدل آرہا ہوں تا کہ کوئی بھی منظر میں دیکھے بنا نہ رہ جاؤں مگر 35 پہاڑی کلومیٹر کا سوچ کر حوصلہ نہ پڑتا ،تاہم ہمسفروں کی اگلی ’’ ہائے‘‘ پھر سے یہی سوچنے پر مجبور کر دیتی۔ شاید میری خواہش میں اتنی شدت تھی کہ ایک بے نام و نشان وادی میں ایک بڑے پتھر نے ہماری جیپ کا کام تمام کر دیا ۔ اب ہمیں اپنا بوجھ خود اُٹھانا تھا اور اگلا گاؤں دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ سو ہم نے اس وادی کو وادی خانہ خراب کا نام دیا اور وہاں سے عازمِ سفر ہوئے۔


شمالی علاقہ جات اور کشمیر جانے والے لوگ اگر تمام مقامات کے حسن کو آپس میں مقابل کریں تو بلا شبہ نیلم ہمیشہ سرِ فہرست ہوتا ہے۔ دریائے نیلم کے کنارے کنارے لمبائی میں چلتی یہ وادی ایسی خوبصورتی کا مظاہرہ کرتی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ دنیا تیاگ کر کے اسی کے جنگلوں میں زندگی بِتا دی جائے۔ اس کے دوسری جانب مقبوضہ کشمیر ہے جسے مقامی بہت سہولت کے ساتھ "بھارت" کہتے ہیں ، اور دریائے نیلم آزاد اور مقبوضہ علاقوں کے درمیان قدرتی حد بندی کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم نے دریا کی دوسری جانب بے شمار چندروتیوں اور رکیش کھناؤں کو اپنے حصے کے نیلم کی سیاحت کرتے دیکھا۔نیلم کا جنگلی حسن ، حسنِ بے پرواہ ہے۔ یہ وہ گوہر ہے، جس کو اپنی بھی خبر نہیں۔یہ خود نہیں جانتی کہ اس کی آغوش میں اتنے سیاح کیوں آتے ہیں۔ اس میں وادیءِ کاغان کی طرح پہاڑوں کے علاوہ صرف درخت ہی نہیں ہیں بلکہ یہ تو کسی سلیقہ شعار سگھڑ گھریلو خاتون کی مانند ہر پتھر اور ہر چشمے پر ایسی خوش رنگ کشیدہ کاری کیے ہوئے ہے کہ نگاہیں ہٹنے پر نہیں آتیں اور دل بھرنے پر نہیں آتا۔گو ہریالی سبز رنگ میں ہی ہوتی ہے مگر یہاں سبز کے اندر کئی اور رنگ تھے ۔ گہرے اور ہلکے سبز کے درمیان ہزاروں سبز ایسے تھے جو ایک دوسرے سے مکمل الگ، اپنا اظہار کررہے تھے۔ پھر پانی صرف نیلا ہی نہیں تھا، نیلے کے کئی روپ تھے جو میں نے ایک ساتھ دیکھ کر خدا کی اس صناعی کی داد دی۔میں نے با ر ہا پورے منظر کو آنکھوں میں چھپا کر محفوظ کرنا چاہا تا کہ جب جی چاہے، خیال کی کھڑکی وا کروں اور چشمِ تصور سے لاہور کی بے ہنگم ٹریفک میں پھنسا پھنسا ہی قندِ مکرر کا مزہ لے لوں کہ مختار مسعود کے مطابق خیال پر تو کبھی کوئی پابندی نہیں ، جب جی چاہا ، پھر سے منظر سجا لیا۔

 

پانی کا شورگو موسیقی کے کسی پیمانے پہ پورا نہ اترتا تھا ، مگر اس کی مترنم سی آواز سماعتوں کو ہمیشہ ایسی بھلی محسوس ہوتی کہ سب کچھ چھوڑ کر اسی کو سننے کا دل کرتا۔ نیلم کا پانی شفاف تھا،مقدس تھا، اسے برف سے پگھلے ابھی کچھ گھنٹے نہیں ہوئے تھے ۔ یہی پانی ہمارا وضو تھا، یہی غسل اور یہی پیاس بجھانے کے کام آتا۔عہدِ طفولیت کی مانند اس پر کوئی قد غن نہ تھا،اس گناہ بالکل بھی نہ تھے، اس نے کہیں سیلاب بن کر کہرام نہیں مچایا تھا، سو معصومیت اپنے جوبن پہ تھی۔یہ پتھروں سے جھگڑا کرتا اسکول کے بچوں کی طرح معلوم ہوتا تھا جو منٹوں میں مان بھی جاتے تھے۔ میں نے چشمِ خیال سے اسے جہلم میں ملتے دیکھا ، اور پھر جہلم کو سندھ میں ۔ وہ گدلا آلودہ پانی، کبھی یہ بھی رہا ہوگا، میری سوچ اس مقام پہ آکر رُک گئی اور میں نے اپنی توجہ موجود پر لگائے رکھنے کے لیے دور سر سبز پہاڑوں پر نگاہ دوڑائی ۔ یہ ساری وادی ہی طفل کی طرح معصوم تھی۔ اپنا حق جتانے کے لیے پیار بھری مشکلات اور تھکاوٹ ضرور دیتی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اپنی آغوش میں لے کر ہر جگہ نت نئے لبادے اوڑھ کر ہمارے شعور اور یادوں کی کتاب میں نئے باب رقم کرتی تھی۔

ہر اگلے موڑ پر ایک چھوٹی سی ندی آجاتی ، جو تازہ برف کو پگھلا کر پانی کو ایک لمبے سفر پر روانہ کرنے کے لیے دریا تک رخصت کرنے آتی۔ اس کی جدائی کا منظر غمگین بالکل بھی نہ تھا، یہ تو ولولہ بھر کے پوری قوت کے ساتھ اسے یوں دریا کے سپرد کر تی کہ پانی اپنی اگلی منزلیں طے کرنے کو بے تاب سا ہو جاتا ۔ پھریہ جُز دریا میں داخل ہو کر کُل کا حصہ بن جاتا، اسی کی خصوصیات اپنا لیتا، سامنے کا پتھر بھی ڈھیٹ بن کر یونہی اس کے آگے کھڑا رہتا، اپنی انا کی جنگ میں اپنا آپ گنواتا رہتا۔ ہر آنے والا ریلا اس کے کونوں کو اور گول کر دیتا ۔ تھوڑی سی ریت اس کے اوپر سے جھڑتی اور دریا کے ساتھ بہنے لگتی۔ پانی اس کا نقصان ہوتا دیکھتا تو تھوڑی سی مصالحت پسندی پہ اتر آتا اور پتھر کے گرد گول گول گھومتا لمبا راستہ لے کر آگے بڑھ جاتا۔یہ منظر میں نے بار بار دیکھا اور اس میں ایسا لطف تھا کہ جب ساتھی خوش گپیوں میں مگن ہوتے، میں گھنٹوں دریا کنارے بیٹھا یہی سب کچھ دیکھتا رہتا۔

ایک دن وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے الجھ بیٹھا، اپنا احتساب کیا تو معلوم ہوا کہ میں ہمیشہ پانی ہی کی طرفداری کرتا ہوں ، کبھی پتھر بن کر تو دیکھوں اس میں کیسی انا ہے۔ فلسفے کے اس دشت میں اُترا توبہت کچھ لے کر لوٹا۔ دوسری جانب دنیا ہی الگ تھی۔ میں نے سوچا، سچے اور کھرے انسان بھی تو اسی پتھر کی مانند ہوتے ہیں۔ جس طرح بڑے بڑے پتھر پانی کے آگے سینہ سپر کھڑے اپنا آپ گنوا کر بھی خوش ہیں ، اسی طرح کھرے لوگ بھی جھوٹ اور فریب کی آندھیوں کے آگے یونہی ڈٹ جایا کرتے ہیں۔ یہ اس جنگ میں اپنا ریزہ ریزہ گنواتے ایک دن اپنے وجود کا خاتمہ کر بیٹھتے ہیں مگر کبھی بھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ اس کے بر عکس وہ پتھر بھی تو ہیں جو پانی کے ایک ہی ریلے میں اپنی انفرادیت اور اپنا موقف بھول کر ساتھ ہی بہتے چلے جاتے ہیں۔ گھس کر تو یہ بھی ایک دن ختم ہو ہی جائیں گے مگر ان کے اس عمل نے ابن الوقتی کی مہر ان کے کردار پرایسے ہی ثبت کر دی ہے، جیسے دھوکہ دینے کے بعد انسان بھروسے کے قابل نہیں رہتا۔ ہاں وہ بھی تو تھے جو اتنی طاقت تو نہ رکھتے تھے کہ موجوں کے آگے سینہ تان کر ٹھہر سکیں ، تاہم وہ دریا کے کنارے کھڑے ہو کر پانی کو بحرِ بے کراں ہونے سے بچاتے تھے۔ ضبط کی بندھن میں بندھے ان سالاروں کو دنیا ’’کناروں‘‘ کا نام دیتی تھی اور احسان مند تھی کہ اِن کی بدولت اُن کے گھر محفوظ ہیں۔سینہ سپری ، ضبط یا ابن الوقتی ، ان تین میں سے ایک کا انتخاب انسان کے سامنے ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور یہی اس کے کردار پر دائمی مہر لگا دیتا ہے۔نیلم کی جو تصویریں میں نے سیلولائیڈ کے فیتے پر نقش کیں، وہ تو شاید وقت کی دھول میں غائب ہو جائیں، مگر جو منظر میں نے جی بھر کر دیکھے،ان کو محسوس کیا، پھر آنکھیں بند کر کے خیال کے خالی کینوس پرمنظر کشی کی، اس کی ملکیت کوئی مجھ سے چھین نہ سکے گا کہ ان تصویروں میں رنگ میں نے خود بھرے ہیں ۔ یہی میری تنہائیاں آباد کرتی ہیں اور یہی میرا حاصلِ سفر ہیں


Saturday 1 November 2014

Impediments in the Progress of Pakistan

 
         





                It seems quite awful when we think of the progress of Pakistan. The internal and external security
threats, dying economy, industry taking its last breaths, political instability, worldwide humiliation and
what not. The first expression that arises in the mind of a patriot is definitely that the present condition of
the state is poles apart as it was pictured by its founders. The dreams seen by those great people, the
sacrifices offered by the masses and a united passion seems to bear no fruits. However, there is always a
space behind a case and what we have to do is to figure out the real problems that are to be eradicated.

             We cannot pay a deaf ear to these matters by blaming it a typical ex-colonial state. Apparently, information bubble of NEWS, will tell us that there is inflation, load sheading, primitive system in Pakistan, and some others major problems are listed above. A matter of fact, these are things needing less heed to be sorted out. These are just the effects caused by the actual hindrances in the approach towards progress. So, dire purpose will be to point out behind the layer things.

             The first and foremost problem that is the root cause of all the fuss is the aimlessness of our
nation. We as a nation can never decide what we want from the state. The dream of Iqbal is presented in a
crippled manner by the extremists of one side and fascinated by the fanatics of the other end. The people
in between these extremes have different fractured versions of their ideas that drive them to support the
ruling or opposition party. They are entangled in the words like constitution and mandate, thereby
forgetting the reality and truth. They can easily be hijacked by raising the confusing slogans of democracy
and dictatorship. Why the same faces are elected to the assemblies repeatedly, with zero performance and
a bundle of new slogans? Is it not a ‘democratic dictatorship’? The only answer to the bunch of these
questions is that they have art to mold, fold and fake the idealistic personas of the nation. This dilemma of
our nation produced innumerable problems; “A huge part of budget goes on defense”, “unappreciable
patronization of scientific organizations”, “Scattered face of our democratic values unveils outside of
continent”.

              Moving one step further, let us talk about the lefties and the righties of Pakistan. Left side is just the
reaction of the right one. From the very first day, the right wing of Pakistan is trying to keep the controls
of the country in its hands to Islamize in a way they want. However, it could never achieve a position
more than a pressure group or used as the chess moves to save some other king. For example, the
Pakistani version of the Taliban arose in a small area, hijacked the emotional affiliation of the inhabitants
with Islam and forced the government to acknowledge its existence in 2009. They could not withstand
before the armed forces, but created intense security threats to the country. The same is occurring these
days. Such movements started with terrorism to report their existence and ended with terrorism as a
revenge of unaccomplished ideas. This was one side of the righties. There were others who supported the
dictators to transform the country to an Islamic one, but they were used just like cards of other’s game.
No need to talk about the lefties, they are just playing the politics of reaction.

               One of the major reasons of our dying economy is this instability of political structure. The
terrorism has not only blocked the way of investors to Pakistan, but an uncertainty in the minds of its own
people. Not even a single cricket team can visit our country for a friendly match because of the adverse
impacts of terrorism. On the international platforms, our country faces hatred and humiliation due to the
terrorism and in-firm foreign policies. So, evils due to political volatility, economic disturbances and
other such vices are due to this lack of a wider vision of our people.

                The other scary hound of issues that haunts a lot and is a major impedance in our progress is the
Instability of our institutions. They state inducts proficient officials in bureaucracy to run the system of
government. We cannot dare to say that their vision is not broad as I listed this as a fault for the masses.
Undoubtedly, they can set the examples of perfection in every institute of government by the virtue of
their insight, but the preference of personal motives over the national gain block the road to better service
for the people of our state. This is what we call the red-tape. Political interference is not only the reason
that leads to the shakiness of the institutes. We cannot ignore the fact that higher officials can dictate the
politicians in a better way what is good for the long term progress of the country. Clash of institutions
instigates when limits of power are crossed and every department is ready to interfere the other. This
leads to a chaos; nobody from public knows where to go in the darkness. The state of lawlessness gives
birth to illegal bodies of power in the society and the rule of law is challenged deliberately. Courts fail to
separate falsehood from the truth and extend the cases for years. Hence, anarchy prevails in the society
due to the mismanagement of bureaucracy along with political intrusion.

                The third major problem is the lack of leadership neither on the intellectual grounds nor on the
practical side. A true leader leads its nation by giving it a philosophy and a rightful approach. It is his duty
to figure out the nature of society and formulate a long term action plan for the people to strive. The lust
for supremacy or rule is not his true priority; he has a greater role to awaken his nation. Lack of true
leadership in Pakistan after its creation led the nation to the dilemma of vision. The spirit of becoming
something extra-ordinary which was the hall mark of our nation in 1940s was no more there. In such
circumstances, the different extremist parties emerged at the scene to hijack the ideals of the nation. The
obsession of the superiority, the feudal lords, bureaucrats and military chiefs started an unending tussle in
the corridors of power. The vicious circle of their rule is still running even after seventy years. We are
watching a face change drama after few years but the policies and priorities remain same.

              The anti- state activism, that we see in three provinces of our country are all the fruits of unequal
distribution of resources, which is truly a political fault. The people of Baluchistan having sense of
deprivation, the Sindhis with racial bigotry and the Pakhtons hijacked by the Taliban are not ready stand
side by side for the one big cause. These severe problems are to be solved with great sensitivity, rather
than thinking of a red revolution which will leave nothing but blood. The road to glory is to be paved by
discernment, not by the politics of revenge. In order to come out of this state, our nation needs a
charismatic leader with a far-reaching vision. He will be able to transform the dream of our founders into
reality by giving people a right line of action.

              Another big problem that leads to the ferocious cycle of the same wrong doings is that we, as a
nation, have not learned from our mistakes. The support of the Ayub Khan, was a good chance to grasp
the fact that such a rule is against good of the country. We never figured out our fault, we repeated the
same mistake again. Similarly, the detachment of Bangladesh was a big lesson to learn, but we neglected
the factors that lead to its separation, that are no more hidden, Hamudurehman commission report hasn’t
appeared on the scene yet. Hence, we still have seen problems in the other provinces of Pakistan, where
lack of regulation and rules is barking like wandering dogs.
To the pen off, the list of the sniggering issues on the way to progress goes on to an endless
debate and it can never be solved only by discussions.

                 What we have to do is to develop our sense to discern what is right and what is wrong. We have
to stand by the one, who is capable enough to give us a united idea of progress. We are not lack of
resources, but of people who can truly lead the nation to the rising edge. As far as our duties are
concerned, we have to keep it in mind that charity begins at home. Instead of blaming this and that, we
are to make ourselves ready for the betterment of our own country. The true leadership only rises when
there are people with right approach to stand by them.

               “A nation becomes truly strong since it defeats the                                   dragon of troubles by facing them.”
Dr. Allama Iqbal.

Sunday 5 October 2014

Diary of a Rambler








The charms of traveling can only be understood by those who love to learn. There are others who lay stagnant at weekends, dreaming in the long, boring days to change the world. They cannot even try to change their dress for a fresh day. When I tell them about the external world, they wonder, plan and sleep.

            I am the one to make a plan in seconds and packing up my saddles in minutes, I leave for where I have thought. It is the height of my joy, when I am leaving for an unknown place, to discover many new things and to have plenty of time to enjoy with myself. My thoughts always delight me; they are at their pinnacle when I am alone in a long journey. I make new philosophies, contemplate over the old ones and think about a new world outside the bus. A good book to read is always with me.

            The journey is always much more entertaining than the destination itself. Sometimes, I travel just for the sake of traveling; there is no decided end-post. That seems eccentric? Yes, to me also but the real delight is much more than acting so. Nobody can judge what I feel in going several hundred kilometers away from my city for nothing. 

I remember many times, when a sudden plan is to be accomplished, I ask my friends to accompany. They think a lot, and that is their problem. They need several weeks to plan, and I would have returned from there till then. Man is born free to act, I am at a loss to understand why people take too much time to think whether they would like to discover or not. Life is too short to be wasted.

However, what others do is not my problem at all. I have a learning attitude and that is enough for me. I have just introduced myself as a young traveler. In this section of my travelogues, I'll share my good and bad experience about the places I have seen, and a tour guide to those places as well.

Friday 3 October 2014

سفر لاحاصل

(افسانہ)

 



                

                 اُ س نے دھیرے سے سرگوشی کی ، میں اس کی ساری بات نہ سن سکا، تاہم جو کچھ سمجھا،اُس کے مطابق جواب دے دیا۔ وہ دھیمے سُروں میں پھر گنگنایا،اب کی بارمجھے سب سمجھ آیا، میں نے اُس کو بتایا "ہاں بالکل اکیلے ہی ادھر آیا ہوں‘‘۔ اُس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا: ’’زمین سے اس قدر پرے، اس کونے میں، اِس ویران بستی میں، اِس قدر بے آباد ، پْرخطر اور طویل راہوں سے گزر کر آئے ہو، وجہ جان سکتا ہوں ؟‘‘ میرے اندر خوشی کی ایک عجیب سی لہردوڑ گئی،یوں لگا گویا سفر کی ساری کلفت یک لخت ختم ہوگئی ، میں نے قدرے بلند اور رعب دار آواز میں جواب دیا ۔ " شوق کا کوئی مول نہیں‘‘ ۔ میری بلند آواز میں جوش اور لگن کا ملا جلا رنگ تھا۔ میں نے ایک لمبی سانس لی اور کیمرے کی آنکھ میں ایک اور حسین منظر محفوظ کر لیا۔

                   جاتی شام کے دھندلکے میں ، جب آدھا سورج جھیل کے نیلے پانی میں ڈوب رہا تھا اور باقی آدھا دور اُفق کی سرخ لکیر کے اُس پار اور کسی اور دنیا میں طلوع ہو رہا تھا، میں تیز ٹھنڈی ہوا اور صاف فضا میں لمبے لمبے سانس لے رہا تھا اور وہ میرے سامنے کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا " تم جیسے لوگ یہ حقیقت جان لیتے ہیں کہ ہم سب مسافر ہیں ، ہر کو ئی اپنا اپنا سفرنامہ لکھ رہا ہے ، یہ اور بات کہ کچھ لو گ اپنی کتاب میں وہی کچھ لکھتے ہیں جو تقدیر نے پہلے سے ہی لوحِ محفو ظ میں لکھ ر کھا ہے ۔اور کچھ سر پھرے تقدیر کی تحریر خود لکھنے کے لیے قریہ قریہ پھرتے ہیں۔
               
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا، میں کچھ دیر تک اُس کی اگلی بات کا انتظا ر اور پچھلی بات پرغور کرتا رہا    میں نے دل میں سوچا، کس قدر خوش فہم ہے یہ بوڑھا۔۔۔ پھر قدرے تیز لہجے میں پوچھا گویا اسے بتا رہا ہوں ،تو آپ کے خیال میں مجھے اِن پہاڑوں، ندیوں،اور جھیلوں میں کون سی تقدیر ملے گی؟ اب کسی دیوار تلے خزانہ دفن نہیں کیا جاتا ، کسی ندی میں موتی نہیں بہتے اورکوئی پہاڑ سونے کا نہیں ہوتا۔ میں اگر بچہ ہوتا تو شاید اِن باتوں پر ایمان لاتا مگر میرا تجربہ کچھ اور کہتا ہے اور یہ وہ آڑہے جو آپ کی باتوں کو محض کتابی حیثیت دینے پر مجبور ہے۔                
                    میں نے ایک طرف منہ موڑا ، سائبیریا سے آنے والے پرندے ایک لمبے سفر کے بعد جھیل کنارے اُترنے ہی والے تھے کہ میں نے منظر کی تصویر لے لی۔وہ بوڑھا دوبارہ گویا ہوا ، ’’اچھی تقدیر صرف دولت مندی ہی کا نام نہیں۔" میں نے ۱س کی بات کو جھٹلایا، پھر وہ اُداسی سے گویا ہوا،’’شاید تم 
  اُس دنیا کے باسی ہو جہاں کا خدا ہمارے خدا سے مختلف ہے۔‘‘ میں اُس کے مافی الضمیر کو سمجھ گیا ، میرے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ کر اُس نے اندازہ لگایاکہ بات میرے دل کو لگی ہے، اُس نے ایک اور چوٹ لگا ئی: ’’مادہ پرست خواہ ابھی سفر کے آغاز میں ہی کیوں نہ ہو ،وہ جان جاتا ہے کہ وہ انجانے میں کس چیز کو خدا بنا چکا ہے‘‘مجھ میں تھوڑی سی شرم عود آئی، ایک لمحے کو میں گھبرایا، فوراً ہی دماغ نے دِل کو سمجھایا ، ’’ارے بھائی ، ایسی باتیں کتابوں میں ہی سجی اچھی لگتی ہیں ، یہ دنیا ہے، یہاں کا قانون اور طرح سے چلتاہے۔‘‘ مگر جو اُلجھن تھی سو و ہ رہی۔

                 میں اِسی کشمکش میں تھا کہ اُس سے تقدیر کی تحریر کا مفہوم سمجھوں ،جس سے مراد دولت بھی نہیں یا رہنے دوں کہ کہیں وہ دوبارہ میرے طرزِزندگی پر طنز نہ کر دے۔ ساتھ ہی ساتھ میں اُن پردیسی پرندوں کو دیکھنے میں اِتنا مگن تھا کہ معلوم نہ ہوا کہ وہ بوڑھا نہ جانے کب غائب ہو گیا ۔ اندھیرا زیادہ ہو گیا تھا ۔ جب تک چاند پوری طرح نیلے پانی میں نہ اُترا ،میں جھیل کنارے ایک چٹان پر بیٹھا رہا ، پھر اِس منظر کی ایک تصویر لی اورواپس مُڑ گیا۔
                  میں کئی برس تک ملکوں ملکوں پھرتا رہا۔ دولت اور شہرت ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔کیمرہ میرے رزق کا سبب بنا رہا اور میں مظاہرِ فطرت کو محفوظ کرنے میں لگا رہا ۔دُنیا اِن مناظر کو دیکھ کردادوتحسین کے نعرے بلند کرتی رہی اور انہی نعروں کے شور میں ،میں اِس بات سے بے خبر رہا کہ یہ کتنے ہی نظارے میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکا نہ اپنے دِل میں اُتار سکا۔میری کتابِ زندگی کے اوراق سادہ ہی رہے اور سفرنامہ تحیر سے خالی ہی رہا ۔ میں اپنے خُدا کی پوجا میں اِتنا مصروف رہا کہ اُس بوڑھے کے خدا کو کسی منظر سے نہ نکال سکا۔ گو وہ میرے ساتھ ساتھ رہا اور ہر مقام پر اپنا اِظہار کرتا رہا۔
                                               تاسف کا احساس لیے جب میں خیال نگری سے ہو کر اپنا سفرنامہ پڑھتا ہوں تومعلوم ہوتا ہے کہ من کی دولت سے تہی دست زندگی میری تقدیر تھی اور خضرکا سا رہنما ملنے کے باوجود میں اپنی تقدیر نہ بدل سکا


Tick Tick






Twilight, where the light hugs the night. It is not a tryst, for the day announces vividly: “Look!  My reign is over now. The center of power is moved.” The scene speaks of itself. There is gloom in the light, shine in the murk. The whole audience looks, many notice, some muse. There are others who immerse so deep in thoughts that it is impossible to tug them out. Once hemmed in, they are lost for all eternity. So, he was there.


The flight of ideas knows no bound. Time and space have nothing to do with it. Nurtured in an outpost, having all the ends of the world within its surroundings, no one could stop him to think broad. He was not a mere farmer like others, sowing all their out efforts to harvest the dreams every season. Rather, he was quite a relaxed person with small land to farm and a lot of space to think. Thoughts neither occupy the acres nor currency bills; they are somewhat free of cost. Independent of every necessity, they just need an observing eye and a listening ear. He was rich in both, hence rich in philosophy.


                Curious about the sun and the days, a group of youngsters found it a better idea to talk to the sagacious figure of their society. He was the only thinker in their world, an unparalleled personality among all. “There is something on the other side of the mountains, probably some aliens or a state of talking animals;” he often told them. And they all envisioned the same for long times.  No one could dare to oppose his hypothesis or prove practically, for he was universally considered as the right person. The other reasons were the woods and the mountain ranges extending to infinity which clogged them to go along the river.


                “Every day is different. The yesterday can never come again, nor do the other days. What is this series of sunrises and sunsets?” “Where does the indefinite period of time extend?” He often thought for hours, similarly the others did. They had never counted the days; these were same as unregulated water of river. The age of a person was an unrelated question, for they just worked and enjoyed the short span of life.

 A saint by nature, he never considered himself as sage. This was not what he wanted; he had his own questions which were still unanswered. “Wiser is he, who can solve the mysteries which confuse me,” he often mused. Directionless, he used to find his answers from the questions of those, who venerated him a lot.


On a fine evening, when the people were returning from their fields, some boys encircled him in the way. He greeted with an affectionate smile and sat on a small cliff. The conversation on general topics continued until one of them said, “Where do the fresh days come from?” The short-heighted chap who asked the question, had just stepped in his youth. “You are not the first one to ask it my dear, but it is a mystery. Probably, these are destined to emerge like fresh leaves, like flowers that are always new, and like every new gush of water in our river.” He sighed as he was helpless. “Just as we cannot locate where the river goes, because of the adoption of its tough path, similarly days come from a world inaccessible to us.” He responded hurriedly, to have a fine escape from the topic. But this question was not new for him. It haunted him since long, when he was a child. The days are enigmatic, so does the age. In their culture, the realities of life and death were disguised in some myths, but not too much advanced to stop the queries and the thought process. They were free people because they could think liberally. The spectacles of nature were not yet hijacked by priests to have their bread and butter. However, the limited resources and the race for survival had restricted them to think frequently. A society is alive as long as it strives for its subsistence. When the basic needs are fulfilled, it has to hold the hand of cultural progression to show that it still has the existence.


Those who love to know cannot stop thinking. He returned home with a burden on his mind. But the question was not about the emergence of days. He strongly believed that it will be answered by a series of people with time. Someone will manage to go along the river to meet the external world. The other one will try to climb up the skies to look at the top. This will continue till man will be able to respond to the teenagers about the days and the time. But what can he contribute to this stream was the real question. People come in the world, live and go unnoticed. No one bothers to remember them except those who have given something to the world. An idea, a thought, or a way of life. These people are admired, loved and honored afterwards. He thought it a duty of every man on earth to contribute something for humanity.


On the very next conversations, people learned many new things from the man.“Everything is in a flow, towards some ambiguous world. The place where death is not death. It is mere flow of things, a metamorphosis probably.  Our days, our life period and our world are part of a great game, we cannot understand. But it will be clear one day.” “What we have to do till then?” the same small guy asked who had initiated the debate. The spiritual father smiled and replied in a sweet tone, “We have to try for the sequence of discoveries, to think out of the box which will lead to some outcome. It will happen only if we stop living for these days and nights. We have to live for ourselves. Our lives are too short to be counted. We have to achieve many a goals for better understanding of the nature.”


The days passed as they are destined so. The seasons changed abruptly. The trees were wrapped in more annual rings. Many died and new beings were born. The teenagers became fathers and grandfathers. No one could forget the spiritual figure of their world. No one could even dare to cross the mountains. People stopped thinking wildly. They were now more concerned in their animals and farms. The rain cycle was much improved to provide them enough yields. Prior to this, they had to fetch water from the river to irrigate. People had more than they needed, so they indulged in upgrading their culture. They left their huts to shift in well-designed houses. The clothing was improved. Modern dishes and new etiquettes were devised to show their promotion. The thought process could not be revised, for they were busy in new things. However, the philosophies of the man were still admired. They were much happier in a finitely timeless world. They did not bother to measure how much they have lived, and it made them free from many worries. They enjoyed conversation as long as they wanted, worked as long they had energy and passed their last days vivaciously, for they were ready to enter a new world. The code of morality was exercised as it was devised long ago.


But, the time had prepared them to present before the external world. Before the world of aliens and of talking animals. On a dark day, when the black clouds covered their homes, there came from nowhere a huge army. An army of men wearing iron, holding iron, and riding on a strange animal with extremely fast speed. They invaded, named the land as the new world, and introduced a small thing along with others that sounded tick-tick. The aliens had not only occupied their designed houses and the land, but their time too. They felt entangled in the tick-tick forever.

Wednesday 20 August 2014

A letter to Rashid Minhas

 

Rashid Minhas was martyred on August 20, 1971.




Dear Rashid Minhas,

                 Probably you were expecting something big from us. Many flowers with greeting cards and tributes. A crowd of people to praise you. But I have to come alone to say sorry to you. We have failed to recall your sacrifice. The nation is not free enough to celebrate its heroes.

                 We have no time to talk about you. The media is too much occupied now. It has to grow more problems to increase its viewership. The promos of peace and harmony have no place here. The starving, insecure masses are more interested in the rigging of four seats rather in their basic rights.

                Why should we pay tribute? You were a young guy, amateur enough to save your own life. You could not be too great a patriot like our present politicians to gain reverence. Nation cannot afford to remember such small incidents. It has its own bunch of snags that are more necessary to be resolved.

                 My dear age fellow, I'm regretful I cannot do anything for you. I can't even dare to follow your footsteps.


Yours,
A Common Pakistani.